جنت کے دروازے کھلے رہتے ہیں
اور جہنم کے دروازے بند رہتے ہیں
✍️ محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
21 رمضان المبارک 1442ھ بروز منگل
قرآن کریم نے سورہ زمر کے اخیر میں کفار اور پرہیز گار مسلمانوں کے جنت اور جہنم میں جانے کا ذکر کیا اور بڑے دلچسپ اور خوب صورت انداز میں ذکر کیا، کفار کے لیے فرمایا:
وَسِیقَ ٱلَّذِینَ كَفَرُوۤا۟ إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًاۖ حَتَّىٰۤ إِذَا جَاۤءُوهَا فُتِحَتۡ أَبۡوَ ٰبُهَا. [الزمر. ٧١]
یعنی کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔
اور پرہیز گار بندوں کے لیے فرمایا:
وَسِیقَ ٱلَّذِینَ ٱتَّقَوۡا۟ رَبَّهُمۡ إِلَى ٱلۡجَنَّةِ زُمَرًاۖ حَتَّىٰۤ إِذَا جَاۤءُوهَا وَفُتِحَتۡ أَبۡوَ ٰبُهَا.[الزمر.٧٣]
یعنی پرہیز گار بندوں کو جماعت در جماعت جنت کے پاس بھیجا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے پاس پہنچیں گے تو صورت حال یہ ہوگی کہ اس کے دروازے کھلے ہوں گے۔
بظاہر یہ دونوں آیتیں ایک جیسی معلوم ہوتی ہیں، لیکن غور سے دیکھیں تو دونوں میں بڑا فرق نظر آئے گا، ایک آیت میں فتحت سے پہلے واؤ ہے اور ایک میں نہیں، کفار کے لیے فرمایا:
إِذَا جَاۤءُوهَا فُتِحَتۡ أَبۡوَ ابُهَا یعنی جہنم کے دروازے پہلے سے کھلے نہیں ہوں گے، بلکہ جب مجرم پہنچیں گے تو کھول دیے جائیں گے، داخلے کے بعد پھر بدستور بند کردیے جائیں گے، جب کہ جنت کا معاملہ ایسا نہیں ہے، فرمایا:
إِذَا جَاۤءُوهَا وَفُتِحَتۡ أَبۡوَ ٰبُهَا یعنی جب پرہیزگار جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو انھیں جنت کے دروازے پہلے سے کھلے ملیں گے۔ اس کی تائید سورہ ص کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا:
جَنَّـٰتِ عَدۡنࣲ مُّفَتَّحَةࣰ لَّهُمُ ٱلۡأَبۡوَ ٰبُ.[ص ٥٠]
جنات عدن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔
جنت کے کھلے دروازے اور جہنم کے بند دروازے زبان حال سے اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ اللہ کے غضب کے دروازے وقت ضرورت کھلتے ہیں، پھر بند ہو جاتے ہیں، جب کہ اس کے فضل وکرم ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں، اور سب اپنی رحمتوں سے شاد کام کرتے رہتے ہیں۔ سچ فرمایا:
عَذَابِیۤ أُصِیبُ بِهِۦ مَنۡ أَشَاۤءُۖ وَرَحۡمَتِی وَسِعَتۡ كُلَّ شَیۡءࣲۚپروردگار عالم کا اعلان ہے کہ میرے عذاب میں وہی مبتلا ہوں گے جنھیں میں عذاب دینا چاہوں گا، ورنہ میری رحمتیں ہر شی کو عام وتام ہیں۔
واقعی کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو فضل ورحمت کے کھلے دروازوں کو چھوڑ کر قہر وغضب کے بند دروازوں پر دستک دے رہے ہیں، اور اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان تیار کر رہے ہیں۔
نفس یہ کیا ظلم ہے جب دیکھو تازہ جرم ہے
ناتواں کی جاں پہ اتنا بوجھ بھاری واہ واہ
ایک تبصرہ شائع کریں