قرآن کریم کا درس وفاداری از محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

قرآن کریم کا درس وفاداری


✍️  محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

 5 شوال 1442ھ/18مئی 2021 بروز منگل


بے وفائی عام ہے، اور اس قدر عام ہے کہ اب کوئی اسے برا نہیں سمجھتا، حالانکہ بے وفائی سے بچنا کوئی مشکل کام نہیں، کیوں کہ وفاداری کا مطلب بس اتنا ہی ہے کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ بھلا کرے تو ہم اس کے احسان مند رہیں، اس کے ساتھ بد خواہی نہ کریں، اور اگر اللہ توفیق دے تو اس کے احسان کا بہتر بدلہ دینے کی کوشش کریں، ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاکیزہ سیرت وکردار کے ذریعے ہمیں وفاداری کا درس دیاہے۔ اور ہر طرح کی خیانت، بے وفائی اور احسان فراموشی سے دور ونفور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ سیرت طیبہ میں اس کی بے شمار نظیریں ملتی ہیں، جن میں دو نظیریں ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔
 1 - ابو طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ خدمت کی، ہر مصیبت میں آپ کا ساتھ دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کو ان کی خدمات کا بہترین صلہ دیا، اور انھیں جہنم کے سب سے نچلے طبقے سے نکال باہر کیا، اور ان کے عذاب میں تخفیف کرائی، اب جہنم میں سب سے ہلکا عذاب انھی کو  دیا جاتا ہے۔
2- شاعر دربار رسالت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے شعر وسخن کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور دفاع کیا تو آپ نے  ایک باندی انھیں تحفے میں پیش کی، اور آخرت میں جو عطا ہوگا وہ اس پر مستزاد۔
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہر خیر خواہ کو اس کے عمل کا بہتر صلہ دیا، اور فرمایا کہ میں نے ہر شخص کو اس کے احسان کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیا ہے، ہاں ابو بکر کا بدلہ نہیں دیا، اللہ رب العزت قیامت کے دن ابوبکر کو اس کے احسان کا بدلہ عطا فرمائے گا۔
ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے یہ اہم ارشادات و واقعات بتاتے ہیں کہ ہمیں اپنے محسن کا احسان مند رہنا چاہیے، اور ہوسکے تو اس کے ساتھ خیر خواہی اور ہم دردی کا مظاہرہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔
لوگوں کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی کے سلسلے میں قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم نے انبیائے سابقین کے مقدس واقعات کے ضمن میں ہمیں وفاداری کا درس دیا ہے، اور اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ اللہ کے محبوب بندے کبھی بے وفائی نہیں کرتے۔
ہم نے شروع میں بتایا تھا کہ وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ اپنے محسن کی بد خواہی نہ کی جائے اور ممکن ہو تو اسے بہتر صلہ دیا جائے، آئیے قرآن کریم میں وفاداری کے یہ دو بنیادی اصول تلاش کرتے ہیں.

 اپنے محسن کے ساتھ خیر خواہی


عزیز مصر نے بازار مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو اول نظر ہی میں اپنے دل کا ان سے سودا کرلیا، اور انھیں چاہ کنعان سے لے کر آنے والوں کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، پھر پیغمبر حسن وجمال کو اپنے شاہی محل کا مہمان بنایا، قصر شاہی میں آپ نے عہد طفولیت گزارا، اس کے بعد عہد شباب میں ایک واقعہ پیش آیا جسے قرآن کریم نے یوں فرمایا:
وَرَ ٰ⁠وَدَتۡهُ ٱلَّتِی هُوَ فِی بَیۡتِهَا عَن نَّفۡسِهِۦ وَغَلَّقَتِ ٱلۡأَبۡوَ ٰ⁠بَ وَقَالَتۡ هَیۡتَ لَكَۚ قَالَ مَعَاذَ ٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ رَبِّیۤ أَحۡسَنَ مَثۡوَایَۖ إِنَّهُۥ لَا یُفۡلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
 [يوسف ٢٣]

 یوسف جس گھر میں تھے اس گھر کی عورت نے یوسف کو اپنی طرف راغب کرنا چاہا، اور دروازے بند کرکے کہا کہ آؤ، یوسف نے کہا: اللہ کی پناہ، میرے مالک نے مجھے اچھی طرح رکھا، بے شک ظالم کامیاب نہیں ہوتے۔
  واضح رہے کہ انبیاء کرام قبل نبوت اور بعد نبوت ارتکاب کبائر اور تعمد صغائر سے پاک ہوتے ہیں، اسی لیے ان سے گناہ کا تصور بھی محال ہے، لیکن آپ جس سے ہم کلام تھے وہ آپ کی پیغمبرانہ شان سے واقف نہیں تھی، اسی لیے آپ نے اس خاتون کو جواب میں پہلے معاذ اللہ کہا، پھر فرمایا کہ میرے مالک نے میرے ساتھ بڑی خیر خواہی کی ہے، میرا بھر پور خیال رکھا ہے، جس نے میرے ساتھ اتنی ہم دردی کی ہو اس کے ساتھ میری وفاداری کا تقاضا یہی ہے کہ میں اسے اذیت نہ دوں، اور اس کی غیبوبت میں اس کے اہل کے ساتھ خیانت کرکے اسے تکلیف نہ پہنچاؤں۔ 
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اس حکیمانہ جواب کے ذریعے جہاں گناہ سے بیزاری، اور گناہ سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی وہیں یہ بھی واضح فرمادیا کہ کچھ تقاضے وفاداری کے بھی ہوتے ہیں جنھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا، وفاداری کا سب سے اولین تقاضا یہ ہے کہ اپنے محسن کو تکلیف نہ دی جائے، اس کے ساتھ غدر اور خیانت  سے گریز کیا جائے۔

اپنے محسن کو بہترین صلہ دیا جائے


وفاداری کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اپنے محسن کو بہتر صلہ دیا جائے، اس ضمن میں قرآن کریم کا یہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے راستے میں تھے، دیکھا کہ دو خواتین بکریاں لیے کھڑی ہیں، اور اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے کنویں سے پانی نکالا، اور ان دو خواتین کی بکریوں کو سیراب کیا، ان دو خواتین نے اپنے پدر بزرگوار حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ کہہ سنایا تو حضرت شعیب علیہ السلام نے آپ کو طلب کیا، اور اپنی بچیوں کے ساتھ آپ کے اس عظیم احسان کا بہترین صلہ دیا، اور آپ کی بھر عزت افزائی فرمائی، سورہ قصص میں ہے:
وَلَمَّا وَرَدَ مَاۤءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡهِ أُمَّةࣰ مِّنَ ٱلنَّاسِ یَسۡقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ ٱمۡرَأَتَیۡنِ تَذُودَانِۖ قَالَ مَا خَطۡبُكُمَاۖ قَالَتَا لَا نَسۡقِی حَتَّىٰ یُصۡدِرَ ٱلرِّعَاۤءُۖ وَأَبُونَا شَیۡخࣱ كَبِیرࣱ ۝ فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰۤ إِلَى ٱلظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّی لِمَاۤ أَنزَلۡتَ إِلَیَّ مِنۡ خَیۡرࣲ فَقِیرࣱ ۝ فَجَاۤءَتۡهُ إِحۡدَىٰهُمَا تَمۡشِی عَلَى ٱسۡتِحۡیَاۤءࣲ قَالَتۡ إِنَّ أَبِی یَدۡعُوكَ لِیَجۡزِیَكَ أَجۡرَ مَا سَقَیۡتَ لَنَاۚ فَلَمَّا جَاۤءَهُۥ وَقَصَّ عَلَیۡهِ ٱلۡقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفۡۖ نَجَوۡتَ مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّـٰلِمِینَ۔
[سورة القصص 23 - 25]

ان آیات کا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحب زادیوں کی خدمت کی تو حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی خدمت کا صلہ دیا، اور اپنے اس عمل سے دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ جو مصیبت میں کام آتے ہیں وہ ہمارے محسن اور خیر خواہ ہوتے ہیں، اسی لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو بہتر صلہ دیا جائے، یہی ان کے ساتھ ہم دردی اور وفاداری کا تقاضا بھی ہے۔
قرآن کریم کے یہ دونوں واقعات ہمیں اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ ہم اپنے محسن اور خیر خواہ حضرات کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کریں، ان کے ساتھ غداری نہ کریں، بلکہ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو بہترین صلہ دیں، تاکہ ہمارے اس عمل سے لوگوں میں خیر خواہی اور ہم دردی کے جذبات کو فروغ ملے۔

 انوار القرآن ٹرسٹ، مچھلی پٹنم، اے پی۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Recent in Recipes