على جارہ برائے استعلا کا صحیح استعمال


    محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

 29 ذی الحجہ 1442ھ/ 9 اگست 2021


عربی زبان کی ابتدائی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ لفظ "علی" کا معنی "پر" ہے، اسی لیے بیش تر افراد جب اردو سے عربی ترجمہ کرتے ہیں تو اردو میں جہاں بھی لفظ "پر" نظر آتا ہے اس کے بالمقابل عربی میں ایک عدد لفظ "علی" نذر کرتے چلے جاتے ہیں، حالانکہ کہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کلمہ "علی" استعلا کے لیے آتا ہے، جس کی تعبیر کسی حد تک لفظ "پر" سے ہوجاتی ہے، لیکن لفظ "علی" اور لفظ "پر" میں کوئی تلازم نہیں کہ جہاں اردو میں لفظ "پر" کا استعمال ہو اس کے بالمقابل عربی میں لفظ "علی" بھی لازمی طور پر مذکور ہو، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں کتنے ایسے کلمات ہیں کہ جن میں لفظ "پر" کا استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے بالمقابل عربی میں لفظ "علی" کی گنجائش نہیں ہوتی، اسی طرح عربی زبان میں کتنے مقامات پر لفظ *علی* کا استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے اردو ترجمے میں لفظ *پر* کی گنجائش نہیں ہوتی، جو اس بات پر واضح دلیل ہے کہ لفظ *پر* اور *علی* کے معنی میں کوئی تلازم نہیں ہے۔
لفظ علی کے استعمال کے سلسلے میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علی تفوق وبرتری کے لیے آتا ہے، اور یہ کلمہ اسی وقت ذکر کیا جاتا ہے جہاں تفوق وبرتری کے معنی کی ادائیگی کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی اگر کوئی کلمہ تفوق وبرتری کے معنی پر دلالت کرتا ہے تو اس کے ساتھ علی کے استعمال کی ضرورت نہیں رہے گی، کیوں کہ جوہر لفظ سے معنی مراد کی ادائیگی ہوگئی تو اب مزید کسی ایسے کلمے کی ضرورت نہیں رہی جو استعلا کا مفہوم واضح کرے۔ 
ہم یہاں کچھ ایسے عربی کلمات پیش کریں گے جو بلندی، اونچائی یا زیادتی کے معنی پر دلالت کرتے ہیں، اسی لیے ان کے ساتھ لفظ علی کا استعمال یا تو غلط ہوتا ہے یا کم از کم غیر ضروری ہوتا ہے، لیکن ان کے اردو ترجمے میں پر ہوتا ہے، اسی لیے بعض حضرات عربی میں بھی لازمی طور پر لفظ علی ذکر کردیتے ہیں، جو لغوی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔
اس کی کچھ نظیرں ملاحظہ فرمائیں۔

 1- *بَزَّ قرينه.* وہ اپنے اقران پر فوقیت لے گیا، اس میں پہلے ہی سے تفوق کا معنی ہے، اسی لیے *بز على أقرانه* نہیں کہا جائے گا۔

2- *رجح زيد فلانا* زید ہوشیاری میں فلان پر فوقیت رکھتا ہے، کہتے ہیں: *رجحت إحدى الكفتين الأخرى.* ترازو کے دو پلڑوں میں ایک دوسرے سے اوپر رہا۔
یہاں پر بھی جوہر لفظ سے استعلا کا مفہوم واضح ہے، اسی لیے رجح کے ساتھ علی کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔

3- *رحم الله عبدا صالحا* اللہ نیک بندے پر رحم فرمائے، رحم بغیر علی کے مستعمل ہے، قرآن وحدیث میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، ارشاد باری ہے: 
 *وَٱعۡفُ عَنَّا وَٱغۡفِرۡ لَنَا وَٱرۡحَمۡنَاۤۚ* 
حدیث پاک میں ہے:
 *الراحِمونَ يرحمهم الرحمنُ ارْحموا مَنْ في الأرض يرحمكم من في السماء* 
چھینک کے جواب میں کہا جاتا ہے: *يرحمك الله* 
ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رحم کے ساتھ علی کا استعمال غلط ہے، اسی لیے ترحم کے لیے رحمة الله عليه کے بجائے رحمه الله لکھا جائے۔ 

4- *رقي الجبل* پہاڑ پر چڑھا، اسی سے سیڑھی کے لیے مرقاة بولا جاتا ہے، یہ لفظ علی کے بغیر مستعمل ہے، یہ فعل کبھی براہ راست متعدی ہوتا ہے اور کبھی في ساتھ متعدی ہوتا ہے، قرآن کریم میں ہے:
 *أَوۡ یَكُونَ لَكَ بَیۡتࣱ مِّن زُخۡرُفٍ أَوۡ تَرۡقَىٰ فِی ٱلسَّمَاۤءِ*  

5- *ركب الخيل،* گھوڑے پر سوار ہوا، یہ فعل کثرت کے ساتھ علی کے بغیر استعمال ہوتا ہے، ارشاد باری ہے:
 *وَٱلۡخَیۡلَ وَٱلۡبِغَالَ وَٱلۡحَمِیرَ لِتَرۡكَبُوهَا وَزِینَةࣰۚ وَیَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ* [النحل ٨]
اور کبھی فی کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے، قرآن کریم میں ہے:
 *فَٱنطَلَقَا حَتَّىٰۤ إِذَا رَكِبَا فِی ٱلسَّفِینَةِ خَرَقَهَاۖ* [الكهف ٧١]

6- *صعد الجبل وعليه وفيه* ، پہاڑ چڑھا، یہ فعل کبھی براہ راست متعدی ہوتا ہے، اور کبھی فی اور علی کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، اور جب اس کا صلہ إلى آتا ہے تو چڑھنے کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ بلند ہونے کے معنی میں ہوتا ہے، ارشاد باری ہے:
 *إِلَیۡهِ یَصۡعَدُ ٱلۡكَلِمُ ٱلطَّیِّبُ وَٱلۡعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ یَرۡفَعُهُۥۚ* 

 7- *ظلمت فلانا* میں نے فلاں پر ظلم کیا، یہ فعل بغیر علی کے مستعمل ہے، قرآن کریم میں ہے:
 *إِنَّ ٱللَّهَ لَا یَظۡلِمُ ٱلنَّاسَ شَیۡـࣰٔا وَلَـٰكِنَّ ٱلنَّاسَ أَنفُسَهُمۡ یَظۡلِمُونَ* 
سورہ یونس۔ 44 

8- *علوت سطح المنزل* میں گھر کی چھت پر چڑھا، یہ فعل بھی عموماً علی کے بغیر مستعمل ہوتا ہے، کہتے ہیں: *تعلو البسمة شفتيه*اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ غالب ہے۔

9 - *غلب عدوه* وہ اپنے دشمن پر غالب ہوگیا، غلب دونوں طرح مستعمل ہے، کبھی علی کے ساتھ ہوتا ہے، مثلا  
 *قَالَ ٱلَّذِینَ غَلَبُوا۟ عَلَىٰۤ أَمۡرِهِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡهِم مَّسۡجِدࣰا*
دوسری جگہ فرمایا:
 *قَالُوا۟ رَبَّنَا غَلَبَتۡ عَلَیۡنَا شِقۡوَتُنَا وَكُنَّا قَوۡمࣰا ضَاۤلِّینَ* 
 [المؤمنون ١٠٦]
اور کبھی بغیر علی کے استعمال ہوتا ہے، فرمایا:
 *كَم مِّن فِئَةࣲ قَلِیلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةࣰ كَثِیرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ*
مزید فرمایا:
 *یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّبِیُّ حَرِّضِ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ عَلَى ٱلۡقِتَالِۚ إِن یَكُن مِّنكُمۡ عِشۡرُونَ صَـٰبِرُونَ یَغۡلِبُوا۟ مِا۟ئَتَیۡنِۚ وَإِن یَكُن مِّنكُم مِّا۟ئَةࣱ یَغۡلِبُوۤا۟ أَلۡفࣰا مِّنَ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ بِأَنَّهُمۡ قَوۡمࣱ لَّا یَفۡقَهُونَ.*
 [الأنفال ٦٥]

10- *فاق أصحابه* وہ اپنے دوستوں پر فوقیت لے گیا، یہ فعل علی کے بغیر استعمال ہوتا ہے، قصیدہ بردہ کا شعر ہے:
 *فاق النبيين في خلق وفي خلق* 
 *ولم يدانوه في علم ولا كرم*

11- *قهر أعداءه* اس نے دشمنوں کو مغلوب کردیا، یہ فعل بھی علی کے بغیر مستعمل ہے، قرآن کریم میں ہے:
 *فَأَمَّا ٱلۡیَتِیمَ فَلَا تَقۡهَرۡ* [الضحى ٩]

12- *لزمه أن يفعل كذا* اس پر لازم ہے کہ وہ ایسا کرے، یہاں علی کا استعمال ضروری نہیں، قرآن کریم میں ہے:
 *أَنُلۡزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمۡ لَهَا كَـٰرِهُونَ.* [هود ٢٨]

ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عربی میں علی کے استعمال کے اپنے اصول وضوابط ہیں، اس کا اردو ترجمہ سے کوئی تعلق نہیں، اسی لیے اردو میں لفظ پر یا اوپر دیکھ کر عربی میں علی کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔ والله تعالى أعلم. 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Recent in Recipes