صدر العلما علامہ محمد مصباحی صاحب کا انوکھا استدلال
از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری، 2021-1-26
ایک دفعہ میں نے استاذ الاساتذہ صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب قبلہ سے پوچھا کہ حضرت! عربی زبان میں قتل کا لفظ کہاں بولا جاتا ہے؟ کیا اس کے لیے دھار دار آلے سے مار کر ہلاک کرنا ضروری ہے؟
حضرت نے فرمایا: نہیں، ایسا کوئی ضروری نہیں کہ دھار دار آلے سے مارا جائے تبھی قتل کا لفظ استعمال کیا جائے، پھر حضرت نے اپنے دعویٰ پر قرآن کریم سے زبردست استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک قبطی کو گھونسا مارا تو اس نے وہیں دم توڑ دیا، جسے سورہ قصص میں اس طور پر بیان کیا گیا ہے :
فَٱسۡتَغَـٰثَهُ ٱلَّذِی مِن شِیعَتِهِۦ عَلَى ٱلَّذِی مِنۡ عَدُوِّهِۦ فَوَكَزَهُۥ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَیۡهِۖ
یعنی آپ کے ایک امتی نے اپنے دشمن کے خلاف آپ سے مدد طلب کی، تو آپ نے اس دشمن کو گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کردیا۔
قرآن کریم نے سورہ قصص میں ایک شخص کی موت کا ذکر کیا جو گھونسا مارنے سے مرگیا، پھر اسی سورہ قصص کی دوسری آیت میں اسی موت کو قتل سے تعبیر کیا، اور فرمایا :
قَالَ رَبِّ إِنِّی قَتَلۡتُ مِنۡهُمۡ نَفۡسࣰا فَأَخَافُ أَن یَقۡتُلُونِ
جب موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں تبلیغ کا حکم ہوا تو آپ نے اپنے رب کے حضور عرض کی، خدایا! میں نے ان کے ایک فرد کو قتل کیا، مجھے اندیشہ ہے کہ اس قتل کے بدلے مجھے مار ڈالیں گے۔
حضرت نے ان آیات مبارکہ کو سناکر فرمایا کہ اگر قتل کے لیے دھار دار آلے کا استعمال ضروری ہوتا تو گھونسے سے ہونے والی موت کو قتل سے تعبیر نہیں کیا جاتا، یہ دلیل ہے اس بات پر کہ لفظ قتل بولنے کے لیے دھار دار آلے کا استعمال ضروری نہیں ہے۔
مشہور یہی ہے کہ حضور مصباحی صاحب قبلہ دام ظلہ حافظ نہیں ہیں، اس کے باوجود قرآنی آیات سے اس قدر زبردست استدلال ان کی قوت حافظہ، علمی استحضار، دقت نظر اور وسعت مطالعہ کی دلیل ہے۔
أدام الله علينا ظله، وكثر فينا أمثاله.
انوار القرآن ٹرسٹ، مچھلی پٹنم، اے پی۔
ایک تبصرہ شائع کریں