حضور سراج الفقہاء کی مجلس میں
✍️ محمد حبیب اللہ بیگ ازہری۔ 2021-3-11
کوئی دوسال پرانی بات ہے کہ میں سراج الفقہا، محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی نظام الدین صاحب قبلہ، صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور، کی خدمت میں حاضر تھا، مختلف موضوعات پر گفتگو جاری تھی، دوران گفتگو فرقہ اہل قرآن کا تذکرہ چھڑ گیا، حضرت نے فرمایا کہ ایک دفعہ میرے پاس کچھ افراد آئے اور اپنے ساتھ ایک شخص کو لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یہ شخص خود کو اہل قرآن بتاتا ہے، اور کہتا ہے کہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے، اسی لیے قرآن کے ہوتے ہوئے حدیث کی کوئی ضرورت نہیں، اور جب حدیث کی ضرورت نہیں تو کسی دوسری چیز کی بدرجہ اولیٰ ضرورت نہیں۔
حضرت مفتی صاحب قبلہ نے فرمایا کہ میں اس شخص کو دلائل کے ذریعے مطمئن کرتا رہا، لیکن وہ جب تک میری باتیں سنتا، سر ہلاتا، جی جی کرتا، پھر اخیر میں کہتا کہ جب قرآن میں سب کچھ ہے تو پھر حدیث کی کیا ضرورت ہے؟
حضرت نے فرمایا کہ جب میں نے محسوس کرلیا کہ یہ دلائل سے مطمئن ہونے والا نہیں ہے تو میں نے اس سے پوچھا کہ ذرا بتاؤ کتا کھانا حرام ہے یا حلال؟ اس نے کہا: حرام۔
میں نے کہا کہ جب قرآن کریم میں سب کچھ ہے تو یہ بتاؤ کہ قرآن کریم کی کس آیت میں لکھا ہے کہ کتا کھانا حرام ہے.
اس نے کہا : میں عالم نہیں ہوں، اسی لیے اپنے علما سے پوچھ کر ایک ہفتے کے اندر بتاتا ہوں، ایک ہفتے کے بعد آیا اور کہا کہ ابھی ملا نہیں، کچھ دنوں بعد بتاتا ہوں، پھر کچھ دنوں بعد آیا اور کہا کہ تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملا، بعد میں بتاتا ہوں۔
حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ میں بتادوں کہ کتے کی حرمت کا ذکر کہاں ہے؟
اس نے کہا: ضرور بتائیں، نوازش ہوگی۔
مفتی صاحب نے فرمایا: پہلے یہ بتاؤ کہ کتا خبیث جانور ہے یا طیب اور پاکیزہ جانور؟
اس نے کہا کہ کتا تو خبیث جانور ہے۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
وَیُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّیِّبَـٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیۡهِمُ ٱلۡخَبَـٰۤىِٕثَ.یعنی ان کے لیے طیب اور پاک چیزیں حلال ہیں، خبیث اور ناپاک چیزیں حرام ہیں، اور جب کتا خبیث جانور ہے تو قرآن کریم کی آیت کے مطابق وہ بھی حرام ہے۔
اس نے یہ جواب سن کر کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ ہم قرآن کریم میں اپنا جواب تلاش نہ کر سکے، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ کے جواب سے بھی ہمارا ہی مدعا ثابت ہوا کہ جب قرآن کریم میں سب کچھ ہے تو پھر حدیث کی کیا ضرورت ہے.
مفتی صاحب نے فرمایا کہ تم نے صرف یہ دیکھا کہ قرآن کریم میں خبائث کے ضمن میں کتے کی حرمت کا ذکر ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا کہ ان خبائث کو حرام کرنے والا کون ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
ٱلَّذِینَ یَتَّبِعُونَ ٱلرَّسُولَ ٱلنَّبِیَّ ٱلۡأُمِّیَّ ٱلَّذِی یَجِدُونَهُۥ مَكۡتُوبًا عِندَهُمۡ فِی ٱلتَّوۡرَىٰةِ وَٱلۡإِنجِیلِ یَأۡمُرُهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَیَنۡهَىٰهُمۡ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّیِّبَـٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیۡهِمُ ٱلۡخَبَـٰۤىِٕثَ۔مسلمان وہ ہیں جو اس رسول امی کی اطاعت کرتے ہیں جس کا ذکر توریت وانجیل میں ہے، جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں، ان کے لیے پاک چیزیں حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزیں حرام کرتے ہیں۔
تم نے کتے کی حرمت کا ذکر دیکھ کر کہہ دیا کہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے، لیکن ذرا غور کرو کہ جس آیت سے کتے اور دیگر خبائث کی حرمت ثابت ہوتی ہے، اسی آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شارع ہیں، اور آپ کے ارشادات ہمارے لیے حجت ہیں، لہذا قرآن کریم میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے لیے حدیث رسول کی ضرورت ہے، اشد ضرورت ہے، اور ہمہ وقت ضرورت ہے۔
مفتی صاحب کے اس حیرت انگیز استدلال کو دیکھ کر بے اختیار زبان پر یہ شعر جاری ہوجاتا ہے کہ
أولئك آبائي فجئني بمثلهم
إذا جمعتنا يا جرير المجامع
انوار القرآن ٹرسٹ، مچھلی پٹنم، اے پی۔
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں