جو بچے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں

 

جو بچے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں

 

        ✍️ محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

 18 رمضان المبارک 1442ھ/ یکم مئی 2021


حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے عہد شیر خوارگی میں حضرتِ آسیہ نے اٹھایا تو اپنے شوہر سے کہا:

قُرَّتُ عَیۡنࣲ لِّی وَلَكَۖ.
 یہ بچہ میری اور تمھاری آنکھ کی ٹھنڈک بنے گا۔

کچھ دنوں بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ اپنی مادر مہربان کی آغوش شفقت میں پہنچ گئے، رب تعالی نے فرمایا:

فَرَدَدۡنَـٰهُ إِلَىٰۤ أُمِّهِۦ كَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُهَا وَلَا تَحۡزَنَ
ہم نے موسیٰ کو (دوبارہ) اس کی ماں کے حوالے کردیا؛ تاکہ موسیٰ اپنی ماں کی آنکھ کے لیے ٹھنڈک بنے اور اس کی ماں رنجیدہ نہ ہو۔

اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے حوالے سے ان کی مادر مہربان سیدہ مریم سے فرمایا:

فَكُلِی وَٱشۡرَبِی وَقَرِّی عَیۡنࣰاۖ
مریم! تم درخت سے گرنے والے تازہ کھجور کھاؤ، قدموں تلے ابلتے چشمے کا پانی پیو، اور اپنے بیٹے کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاؤ۔

ان تینوں آیات مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اپنی نورانی صورت، پاکیزہ سیرت اور عمدہ عادات واطوار کی بنیاد پر اپنے والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوا کرتے ہیں۔
اسی سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ آج جو بچے اپنے والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوتے ہیں وہ انبیائے کرام کے نقش قدم پر ہوتے ہیں، اور جو اپنے والدین کے لیے وبال جان یا کم از کم درد سر بنتے ہیں وہ  انبیائے کرام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

 انوار القرآن ٹرسٹ، مچھلی پٹنم، اے پی۔

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

Recent in Recipes