اللہ کی یاد کے لیے نماز قائم کرو
از: محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
5 ذی القعدہ1442ھ مطابق 16جون2021
سوال:
ارشاد باری:
وَ اَقِمِ ٱلصَّلٰوةَ لِذِكۡرِیْ۔ [طه ١٤] کا کیا مطلب ہے؟جواب:
ارشاد باری:
وَ اَقِمِ ٱلصَّلٰوةَ لِذِكۡرِیْ۔ کا معنی ہے: اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ اس آیت مبارکہ کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ عربی زبان میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔
(١) مصدر
(٢) فعل
فعل کے لیے فاعل کا ہونا ضروری ہے، اور کبھی فعل کے ساتھ مفعول بھی ہوتا ہے، لیکن فعل کے لیے مفعول کا وجود ضروری نہیں ہے، بہر کیف جب فاعل یا مفعول "فعل " کے ساتھ ہوں تو ایسی صورت میں فاعل و مفعول اپنے حرکات و سکنات کی بنیاد پہ بالکل ممتاز ہوتے ہیں، اور معانی کے تعین میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہیں ہوتی، جب کہ مصدر کا حال اس سے مختلف ہے، کیوں کہ مصدر کے لیے فاعل یا مفعول کا ہونا کوئی ضروری نہیں، اسی لیے جب مصدر کے ساتھ کوئی اسم ظاہر یا ضمیر ہو تو وہاں دو صورتیں نکل آتی ہیں، اور ترکیب میں وہ ضمیر یا اسم ظاہر فاعل بھی بن سکتا ہے اور مفعول بھی، لیکن اس سے کلام میں پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے، اور بسا اوقات تعیین مراد میں دشواری بھی پیش آتی ہے، لیکن کلام الٰہی کی شان ہی نرالی ہے، قرآن مجید کی متعدد آیات میں مصدر اسم ظاہر یا ضمیر کی طرف مضاف ہے، لیکن اس اضافت کی وجہ سے نہ لفظی حسن پامال ہوتا ہے اور نہ معنی مراد کی تعیین میں کوئی دشواری ہوتی ہے، اس کی ایک نظیر پیش نظر آیت مبارکہ میں دیکھی جاسکتی ہے، آیت مقدسہ لِذِكۡرِیْ میں ذکر مصدر ہے، اور اس کے بعد کی یا ضمیر متکلم میں فاعلیت ومفعولیت دونوں کا احتمال ہے، اور اس احتمال کی وجہ سے معنوی حسن میں کوئی کمی یا خرابی پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ہر تقدیر پر معنوی توازن برقرار رہتا ہے، اور دوسری آیات واحادیث سے ہر ایک معنی کی تا ئید ہوتی ہے۔
پیش نظر آیت یعنی لِذِكۡرِیْ میں اگر یا ضمیر متکلم کو فاعل مانا جائے تو اس کے بعد مفعول بہ مقدر ہوگا اور تقدیری عبارت ہوگی:
وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لأذكركم،
یعنی تم نماز قائم کرو تاکہ میں تم کو یاد کروں، اور واقعی جب کوئی بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ بھی اس کو یاد کرتا ہے، فرمایا:
تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، تم میرا شکر ادا کرو، میری نا شکری نہ کرو۔
یہ اس تقدیر پر گفتگو تھی جب یاء ضمیر متکلم کو فاعل مانا جائے، اور اگر اس ضمیر متکلم کو مفعول تسلیم کیا جائے تو تقدیری عبارت ہوگی:
وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لتذكرني
اس صورت میں معنی ہوگا: نماز قائم کرو، تاکہ تم مجھے بھول نہ جاؤ، بلکہ مجھے یاد کرتے رہو، اس معنی کی تائید ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے، جس میں فرمایا:
وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّذِینَ نَسُوا۟ ٱللَّهَ فَأَنسَىٰهُمۡ أَنفُسَهُمۡۚ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ هُمُ ٱلۡفَـٰسِقُونَ. [الحشر ١٩]ان کی طرح مت جاؤ جنھوں نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے انھیں فراموش کردیا، یہی لوگ بے عمل اور فاسق ہیں۔
ما شاء اللہ، ایک جملے میں دو احتمال ہیں، اور ہر ایک احتمال ایسا واضح ہے کہ وہی اصل مراد اور معنی مقصود معلوم ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب بندہ نماز ادا کرتا ہے وہ اپنے رب کو یاد کرتا ہے، اور رب بھی اپنے بندے کو یاد کرتا ہے، عام لوگوں کو اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے کم از کم دو جملوں پر دو سطری عبارت درکار ہوگی، لیکن قرآن کریم نے نماز کی اہمیت اور خالق ومخلوق کے اس مقدس رشتہ ذکر ومحبت کو دو لفظوں میں سمجھادیا، اور بڑے واضح اور خوب صورت اسلوب میں فرمایا:
وَ اَقِمِ ٱلصَّلٰوةَ لِذِكۡرِیْ۔یعنی میرے ذکر کی خاطر تم نماز قائم رکھو۔
میں نثار تیرے کلام پر
ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو
وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
ایک تبصرہ شائع کریں