ہم شکل صیغوں کا مغالطہ
قسط نمبر 1️⃣
✍️ محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
9 ذی القعدہ 1442ھ/ 20 جون 2021
عربی زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو صرفی قواعد اور تعلیل کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہیں، تعلیل کے ذریعے کلمات کا حسن دوبالا کیا جاتا ہے، مشکل صیغوں کو آسان بنایا جاتا ہے، ہمزہ، حرف علت اور ایک جیسے حروف کی تکرار سے پیدا ہونے والی ثقالت دور کی جاتی ہے، بہر کیف تعلیل کے بے شمار فوائد ہیں، لیکن ان فوائد کے ساتھ ساتھ ایک بڑی پریشانی بھی ہے، وہ یہ کہ تعلیل کے بعد بعض کلمات کی شکلیں بدل جاتی ہیں، اور کبھی اس حد تک بدل جاتی ہیں کہ اصل صیغے کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے، جس کے سبب صحیح معنی مراد تک رسائی حاصل کرنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عربی زبان میں اس کی بے شمار نظریں ہوسکتی ہیں، لیکن ہم یہاں صرف اسم فاعل کے مشتبہ صیغوں کا ذکر کریں گے۔
اسم فاعل کے جن صیغوں میں اشتباہ ہوتا ہے ان کی تفصیل یہ ہے۔
1- مہموز عین کے اسم فاعل میں اصل مادہ کے اعتبار سے الف فاعل کے بعد ہمزہ ہوتا ہے، مثلا سأل سے سائل اور دأب سے دائب۔
2- معتل عین واوی کے اسم فاعل میں تعلیل کے سبب الف فاعل کے بعد ہمزہ آجاتا ہے، مثلا قاول سے قائل، اور داوم سے دائم۔
3- معتل عین یائی کے اسم فاعل میں تعلیل کے سبب الف فاعل کے بعد ہمزہ ہوتا ہے، مثلا بايع سے بائع.
یعنی مہموز عین، معتل عین واوی اور معتل عین یائی تینوں میں الف فاعل کے بعد ہمزہ ہوتا ہے، جو کلمات ان تینوں اقسام سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے مادے کے حروف مختلف ہوتے ہیں ان میں حرف علت ہمزہ سے بدل جائے تو صیغوں کی شناخت میں کوئی دشواری نہیں ہوتی، دشواری وہاں ہوتی ہے جہاں مادے کے حروف ایک جیسے ہوتے ہیں، اور تعلیل کے بعد حرف علت، ہمزہ سے بدل جاتا ہے، ایسے کلمات کی شناخت میں بڑا مغالطہ ہوتا ہے، ذیل میں اس کی کچھ نظیرں ملاحظہ فرمائیں۔
1- ثائر ، اس کلمے کے اندر دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ ثأر القتيل وبه ثأرا بمعنی انتقام لینا سے اسم فاعل ہو، اس صورت میں یہ مہموز عین ہوگا۔
دوسرے یہ کہ ثار يثور، ثورانا وثورا وثورة بمعنی بھڑکنا سے اسم فاعل ہو، اس صورت میں یہ معتل عین واوی ہوگا۔
2 - جائر اس میں بھی دو احتمال ہیں، پہلا احتمال یہ ہے کہ یہ جأر، يجأر، جأرا وجؤارا، بمعنی آواز بلند کرنا اور استغاثہ کرنا سے اسم فاعل ہو۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ جار يجور، جورا بمعنی راستہ بھٹک جانا سے اسم فاعل ہو۔
یہ دونوں کلمات قرآن کریم میں وارد ہیں، پہلا کلمہ سورہ مومنون میں ہے، فرمایا:
حَتَّىٰۤ إِذَاۤ أَخَذۡنَا مُتۡرَفِیهِم بِٱلۡعَذَابِ إِذَا هُمۡ یَجۡـَٔرُونَ. لَا تَجۡـَٔرُوا۟ ٱلۡیَوۡمَۖ إِنَّكُم مِّنَّا لَا تُنصَرُونَ. [المؤمنون ٦٣-٦٥]
اور دوسرا کلمہ سورہ حجر میں ہے، فرمایا:
وَعَلَى ٱللَّهِ قَصۡدُ ٱلسَّبِیلِ وَمِنۡهَا جَاۤىِٕرࣱۚ وَلَوۡ شَاۤءَ لَهَدَىٰكُمۡ أَجۡمَعِینَ.[النحل ٩]
3- حائر اس صیغے میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ یہ حار يحور حورا وحئورا بمعنی لوٹنا سے اسم فاعل ہو، دوسرے یہ کہ حار يحار حيرا وحيرة وحيرانا بمعنی حیرت زدہ رہنا سے اسم فاعل ہو۔
اول الذکر صیغہ معتل واوی اور باب نصر سے ہوگا، آخر الذکر صیغہ معتل یائی اور باب سمع سے ہوگا۔ اور حار بمعنی رجع قرآن کریم میں وارد ہے، فرمایا:
اس نے یہی سوچا تھا کہ کبھی اپنے رب کے حضور واپس نہیں جانا ہے۔
4 - زائر اس میں بھی دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ یہ زأر، يزأر زأرا وزئيرا بمعنی دھاڑنا سے اسم فاعل ہو، دوسرے یہ کہ یہ زار يزور، زيارة ومزارا بمعنی زیارت کرنا سے اسم فاعل ہو، پہلی صورت میں مہموز عین ہوگا، دوسری صورت میں معتل عین واوی ہوگا، عنترہ ابن شداد کے معلقہ میں ہے:
حلت بأرض الزائرين فأصبحت
عسرا علي طابك ابنة مخرم
اس شعر میں زائرین سے مراد دشمن ہیں جو شیروں کی طرح دھاڑتے ہیں۔
5- سائل اس میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ یہ سأل سؤالا ومسألة بمعنی سوال کرنا سے اسم فاعل ہو۔
دوسرے یہ کہ یی
سال سيلا وسيلانا بمعنی جاری ہونا سے اسم فاعل ہو۔
اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے ایک شعر میں ان دونوں کلمات کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ جمع فرمایا ہے: شعر
بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنویں کا پیاسا
خود بجھا جائے کلیجہ میرا چھینٹا تیرا
اس شعر میں پہلے سائل کا معنی سیال ہے، جب کہ دوسرے سائل کا معنی طالب اور خواست گار ہے۔
6- صائر اس کے دو معانی ہیں، ایک آمادہ کرنے والا، اس صورت میں یہ صار يصور صورا الشئ إليه، بمعنی آمادہ کرنا سے اسم فاعل ہوگا۔ قرآن مجید میں ہے:
قالَ فَخُذْ أرْبَعَة مِن الطَّيْر فَصُرْهُنَّ إلَيْكاللہ نے فرمایا کہ چار پرندوں کو پکڑ کر ان پرندوں کو اپنی طرف مائل کرلو۔
اردو عربی زبان میں استعمال ہونے والے کلمات صورت، تصور، تصویر وغیرہ اسی مادے سے تعلق رکھتے ہیں۔
صائر کا دوسرا معنی ہے ایک حال سے دوسری حالت میں منتقل ہونے والا۔ ایسی صورت میں یہ صار يصير، صيرا، صيرورة ومصيرا، سے اسم فاعل ہوگا۔
7- عائل یہ کلمہ اگر عال يعول عولا سے مشتق ہو تو عیال دار ہونے کے معنی میں ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے:
وابدأ بكم تعول یعنی اپنے عیال سے شروع کرو۔
اور اگر عال، يعيل عيلا وعيلة، سے مشتق ہو تو محتاج وتنگ دست ہونے کے معنی ہوگا، قرا پاک میں ہے:
وَإِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَةࣰ فَسَوۡفَ یُغۡنِیكُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦۤ إِن شَاۤءَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِیمٌ حَكِیمࣱ. [التوبة ٢٨]
دوسرے مقام پر فرمایا:
8- قائل اگر یہ کلمہ قال يقول قولا مقالا ومقالة سے مشتق ہو تو بولنے والے کے معنی میں ہوگا۔
اور اگر قال يقيل قيلا سے مشتق ہو تو قیلولہ کرنے والے کے معنی میں ہوگا، اسی سے یہ آیت بھی ہے:
[الأعراف ٤]
کتنی بستیوں کو ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ رات کو سو رہے تھے یا دن میں آرام کر رہے تھے۔
ہم نے یہاں آٹھ مثالوں پر اکتفا کیا ہے، تلاش کرنے پر اس کی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحیح معنی مراد سمجھنے کے لیے کلمات پر کافی غور و خوض کی ضرورت ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں