مِنْ ابتدائیہ کا صحیح استعمال

 مِنْ ابتدائیہ کا صحیح استعمال


 پہلی قسط


         محمد حبیب اللہ بیگ ازہری


ہم اِن کے اور اُن کے بارے میں سنتے رہتے ہیں، آئیے آج کچھ "مِن" کے بارے میں پڑھتے ہیں، عربی کی ابتدائی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ "من" کا معنی "سے" ہے، بلا شبہ یہ بات بہت حد صحیح بھی ہے، لیکن اردو میں لفظ ''سے" چار مختلف معانی کے لیے بولا جاتا ہے۔
1- ابتدائے غایت کے لیے، مثلاً میں گھر سے نکلا۔
2- ابتدائے غایت مع استمرار مدت کے لیے، مثلاً: میں نے تمھیں دو دن سے نہیں دیکھا۔
3- آلے اور واسطے کے لیے، مثلاً: اس نے زبان سے کہا، اور میں نے قلم سے لکھا۔
4- حرف رابط کے طور پر بولا جاتا ہے، مثلاً: میں نے اس سے ملاقات کی، اور تم سے وعدہ کیا وغیرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان چاروں مقامات پر استعمال ہونے والے لفظ "سے" کے لیے عربی کا ایک لفظ "من" کافی ہے، یا ہر ایک کے لیے علاحدہ لفظ موضوع ہے؟
جواباً عرض ہے کہ عربی زبان میں ایک معنی کے لیے کئی الفاظ موضوع ہوتے تو کئی معانی کے لیے ایک ہی لفظ کیوں کر موزوں ہوسکتا ہے، اسی لیے عربی میں مذکورہ چاروں مقامات کے لیے چار علاحدہ کلمات موضوع ہیں۔
1- ابتدائے غایت کے لیے "من" آتا ہے، مثلاً: خرجت من المسجد
2 - ابتدائے غایت مع استمرار مدت کے لیے "مذ" اور "منذ" آتا ہے، مثلاً: ما رأيته مذ يومين، ومنذ أن تزوجت لم أر وجه السعادة.

3- آلے اور واسطے کے لیے عموماً "با" آتا ہے، مثلاً: كتبت بالقلم، يقولون بأفواههم.
4- حرف رابط کے طور پر آنے والے "سے" کے مقابلے میں عربی کا کونسا لفظ آتا ہے اس کے بارے میں کوئی قاعدہ کلیہ یا اکثریتی ضابطہ بیان نہیں کیا جاسکتا، البتہ یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ایسا کوئی ضروری نہیں کہ اردو میں جہاں لفظ "سے" ہو عربی میں اس کے مقابلے میں "من" بھی آئے، عربی میں بہت سے مقامات پر "من" آتا ہے، لیکن اس کے اردو ترجمے میں "سے" نہیں آتا، مثلاً: حط من قدره، نال من شرفه. وغیرہ۔ یعنی اس نے شان گھٹادی، اور نا قدری کی۔
اسی طرح اردو میں کئی جگہ لفظ"سے" آتا ہے، لیکن عربی میں اس کے مقابلے میں "من" نہیں آتا، مثلاً: "میں نے اس سے وعدہ کیا" کی عربی ہوگی، وعدته، قرآن مجید میں ہے:
ٱلشَّیۡطَـٰنُ یَعِدُكُمُ ٱلۡفَقۡرَ وَیَأۡمُرُكُم بِٱلۡفَحۡشَاۤءِۖ وَٱللَّهُ یَعِدُكُم مَّغۡفِرَةࣰ مِّنۡهُ وَفَضۡلࣰاۗ وَٱللَّهُ وَ ٰ⁠سِعٌ عَلِیمࣱ. [البقرة ٢٦٨]

اردو میں لفظ "من" کا غلط یا غیر ضروری استعمال کیسے ہوتا ہے، اسے ہم آگے تفصیل سے بیان کریں گے، لیکن اس سے پہلے یہ عرض کردیا جائے کہ مبتدی طلبہ اور نو آموز مترجمین عموماً باب استفعال کے افعال میں "من" کا غلط یا بے جا استعمال کرتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ باب استفعال کی خاصیت طلب ماخذ ہے، اور کسی سے طلب کرنے کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے لفظ "سے" ضروری ہے، تو بہت ممکن ہے کہ اسی وجہ سے باب استفعال کے افعال میں "من" کا غلط یا بے جا استعمال ہوتا ہو، قرآن کریم میں باب استفعال کے کئی افعال مذکور ہیں، جو اپنے مفعول کی جانب براہ راست متعدی ہیں یا حرف "با" کے ساتھ متعدی ہیں، ذیل میں اس کی کچھ نظیریں ملاحظہ فرمائیں۔
1- حضرت موسی علیہ السلام کے قصے میں ہیں:
(1)- فَٱسۡتَغَـٰثَهُ ٱلَّذِی مِن شِیعَتِهِۦ عَلَى ٱلَّذِی مِنۡ عَدُوِّهِۦ. [القصص ١٥].
(2)- فَإِذَا ٱلَّذِی ٱسۡتَنصَرَهُۥ بِٱلۡأَمۡسِ یَسۡتَصۡرِخُهُۥۚ. [القصص ١٨]
(3)- فَٱنطَلَقَا حَتَّىٰۤ إِذَاۤ أَتَیَاۤ أَهۡلَ قَرۡیَةٍ ٱسۡتَطۡعَمَاۤ أَهۡلَهَا۔ [الكهف ٧٧]
(4)- وَٱسۡتَغۡفِرِ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورࣰا رَّحِیمࣰا. [النساء ١٠٦].

ان مثالوں میں باب استفعال کے مختلف افعال براہ راست متعدی ہیں، اور ان کے علاوہ استطاعت واستبدال بھی براہ راست متعدی ہوتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ان کے ترجمے کے دوران لفظ "سے" کی گنجائش کم ہوتی ہے۔

 باب استفعال کے سارے افعال براہ راست متعدی نہیں ہوتے، کچھ افعال کسی حرف جر کے ساتھ متعدی ہوتے ہیں، قرآن مجید میں بہت سے افعال لفظ "با" کے ساتھ متعدی ہیں، مثلاً:

(1)- یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱسۡتَعِینُوا۟ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِینَ. [البقرة ١٥٣]
(2)- فَإِذَا قَرَأۡتَ ٱلۡقُرۡءَانَ فَٱسۡتَعِذۡ بِٱللَّهِ مِنَ ٱلشَّیۡطَـٰنِ ٱلرَّجِیمِ. [النحل ٩٨]
(3)- فَٱسۡتَبۡشِرُوا۟ بِبَیۡعِكُمُ ٱلَّذِی بَایَعۡتُم بِهِۦۚ وَذَ ٰ⁠لِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِیمُ. [التوبة ١١١].
ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ باب استفعال کے افعال بلکہ عام کلمات میں لفظ "من" کے استعمال کے اپنے الگ اصول وضوابط ہیں، جن کے لیے لغت عرب کی جانب مراجعت ضروری ہے۔
          

جاری

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

Recent in Recipes