*مفتی عبد القدیر صاحب قبلہ مختصر تعارف*


          ✍️ *محمد حبیب اللہ بیگ ازہری* 


خلیفہ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی عبدالقدیر صاحب قبلہ، خطیب ومینیجر جامع مسجد وجئے واڑہ، صوبہ آندھرا پردیش کے جید اور معتبر عالم دین ہیں، آپ اپنی دینی اور ملی خدمات کی بنیاد پر علمی حلقوں میں غیر معمولی شہرت و مقبولیت کے حامل ہیں، آپ نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ دین متین کی خدمت اور مسلک حق کی اشاعت میں گزار دیا، آپ کا پورا نام محمد عبد القدیر ہے، والد گرامی کا نام محمد عبد الجلیل ہے، آپ کا یوم پیدائش  24 ذی القعدہ 1370 مطابق 28 اگست 1951 بروز دوشنبہ ہے، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں حاصل کی، پھر اعلی تعلیم کے لیے مدرسہ حامدیہ اشرفیہ سنبھل، یوپی تشریف لے گئے، اور خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی حبیب اشرف صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کے زیر سایہ درس نظامی کی تکمیل کی، اور ںزرگان دین کے ہاتھوں سند فراغت اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔

 آپ نے فراغت کے بعد ہی سے شہر وجے واڑہ کو اپنا مسکن بنالیا، اور کم وبیش چالیس سال تک وجئے واڑہ کی جامع مسجد سے وابستہ رہے، اور یہیں سے مسلسل مذہب حق اور مسلک اعلی حضرت کی گرانقدر انجام دیتے رہے۔

 آپ کی بعض اہم خدمات یہ ہیں


 *ائمہ کرام اور حفاظ عظام کی تقرری* 


آپ کی سب سے اہم اور نمایاں خدمت یہ ہے کہ آپ نے آندھرا اور تلنگانہ کی بے شمار مساجد میں ائمہ اور خطبا مقرر کیے، ماہ رمضان کے لیے حفاظ اور قراء فراہم کیے، بظاہر یہ کام بہت آسان معلوم ہوتا ہے، لیکن میدانی سطح پر یہ انتہائی دشوار گزار اور صبر آزما کام ہے، اس اہم کام کے لیے ایک طرف حفاظ وقرا اور علمائے کرام سے مسلسل روابط درکار ہیں، تو دوسری طرف مختلف علاقوں کی ضروریات و ترجیحات سے آگاہی ضروری ہے، اس کے بغیر صحیح جگہوں پر مناسب امام کی تقرری مشکل ہے۔

ائمہ کی تقرری میں مفتی صاحب کی بصیرت اور حسن انتخاب کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی، تقریباً سبھی حضرات اس بات کی گواہی دیں گے کہ حضرت مفتی صاحب قبلہ نے اپنی فراست ایمانی اور دور اندیشی سے جن علاقوں کے لیے جو ائمہ مقرر کردیے وہ اپنے علاقوں کے لیے انتہائی اہم اور موزوں ثابت ہوئے، پوری ذمہ داری اور خدا ترسی کے ساتھ آخری دم تک اپنا فرائض انجام دیتے رہے، اور خلق خدا کو مذہب حق پر قائم رہنے اور شریعت و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے رہے، اس طرح مفتی صاحب قبلہ وجئے واڑہ میں رہتے ہوئے پورے آندھرا میں سنیت بحال رکھنے کے لیے کوشاں رہے، اور مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے۔

  

 آج کے ترقی یافتہ دور میں کسی دور افتادہ علاقے سے دو چند افراد کو بلاکر امام یا مؤذن نامزد کردینا بہت آسان ہے، لیکن جب سواریوں کا معقول بند وبست نہیں تھا، ٹیلی فونی روابط کی گنجائش نہیں تھی، آمد ورفت میں خاصی دشواریوں کا سامنا تھا اسی قدیم دور سے مفتی صاحب قبلہ فی سبیل اللہ اس کار خیر میں مصروف ہیں، اور خاموشی کے ساتھ صوبائی عوام کی دینی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں، ہندوستان کے طول وعرض سے بے شمار حفاظ، علما اور ائمہ حضرات مفتی صاحب قبلہ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کے پاس پہنچتے ہیں، اور کثیر تعداد میں پہنچتے ہیں، ان میں اکثر حضرات وہ ہوتے ہیں جن سے نہ کوئی غائبانہ تعارف ہوتا ہے اور نا ہی ان کی آمد کی پیشگی اطلاع ہوتی ہے، اس کے باوجود کوئی بھی سنی حافظ، عالم یا امام جامع مسجد پہنچ جائے تو مفتی صاحب قبلہ کے زیر نگرانی سب کے لیے قیام وطعام کا انتظام ہوتا ہے، پھر ہر ایک کو حسب حیثیت ولیاقت مناسب جگہوں پر پوری ذمہ داری کے ساتھ پہنچا دیا جاتا ہے۔

ہر سال رمضان المبارک کے با برکت موقع پر بڑی تعداد میں حفاظ کرام وجئے واڑہ کا رخ کرتے ہیں، اور مفتی صاحب قبلہ تقریباً سبھی حفاظ کرام کی امامت و تراویح لیے مناسب جگہوں کا انتظام فرماتے ہیں۔


یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مفتی صاحب کا یہ  سارا کام خالصتاً لوجہ اللہ ہوتا ہے، مفتی صاحب کی یہ ساری تگ ودو خلق خدا کی خدمت اور سنیت کی ترویج واشاعت کے لیے ہوتی ہے، اس کے پیچھے نہ کوئی دنیاوی مفاد کار فرما ہوتا ہے، اور نہ کسی سے مالی منفعت کی امید ہوتی ہے، اور ہوتی بھی کیسے جب کہ آپ کا نصب العین یہ تھا:

وَمَاۤ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَیۡهِ مِنۡ أَجۡرٍۖ إِنۡ أَجۡرِیَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ. [الشعراء ١٠٩]

یعنی اے لوگو! میں اپنی خدمات کے صلے میں تم سے کچھ بھی اجر نہیں چاہتا، مجھے میرا پروردگار اجر وثواب عطا فرمائے گا۔


 *رویت ہلال اور شریعت کی پاسداری* 


اسلامی اعیاد ومراسم میں قمری تاریخ کا لحاظ کیا جاتا ہے،   حدیث پاک میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر عید منانے کا حکم ہے، اسی طرح حج، قربانی، اور دیگر اسلامی شعائر کی ادائیگی کے لیے اسلامی تاریخ ہی کا لحاظ کیا جانا ضروری ہے، لیکن اس سلسلے میں جو تساہلی برتی جاتی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، کچھ افراد سعودیہ کے  ایک دن بعد عید منانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں، کچھ افراد دہلی اور حیدرآباد کے اعلان ہی کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں، عموماً کمیٹی والے عوامی تقاضوں کا بہانہ بنا کر  بلا کسی شرعی ثبوت کے اپنے ائمہ سے رمضان اور شوال کے چاند کا اعلان کروانا چاہتے ہیں، عوامی سطح پر کام کرنے والے علمائے کرام اس معاملے کی نزاکت و سنگینی کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں، ایسے مواقع پر شرعی ثبوتوں کی روشنی میں ثبوت ہلال کے اعلان کے لیے بڑی محنت و جانفشانی کی ضرورت پیش پڑتی ہے، ثبوت ہلال کے معاملے میں حضرت مفتی عبد القدیر صاحب قبلہ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، کیوں کہ مفتی صاحب ہمیشہ اس معاملے میں محتاط رہے، طرح طرح کی دشواریوں کے باوجود شرعی ثبوتوں کی روشنی ہی میں ہلال عید کا اعلان کیا، آپ کا معمول یہ تھا کہ شرعی شہادت کے لیے معتمد افراد کو دور دراز علاقوں میں بھیجتے اور وہاں سے شہادت اور کبھی شہادت علی الشہادت حاصل کرنے کے بعد ہی ہلال رمضان اور ہلال شوال کا اعلان کرتے، پھر دوسرے افراد آپ سے شہادت لے کر اپنے اپنے علاقوں میں چاند کا اعلان کرتے۔

یہی وجہ تھی کہ جب مفتی صاحب کی طرف سے چاند کا اعلان ہو جاتا تو ثبوت ہلال کا یقین ہوجاتا، اور کسی کے لیے شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 

رمضان، عید اور بقرعید کے مواقع پر حضرت مفتی صاحب کی یہ گراں خدمات اور طرح طرح کی مخالفتوں کے با وجود شرعی شہادت کے بعد ہی چاند کا اعلان اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مفتی صاحب کی نظر میں شریعت حقہ کی پاسداری سب پر مقدم تھی، اور آپ شریعت کے معاملے میں کسی قسم کی مداہنت اور تساہلی کو بالکل پسند نہیں کیا کرتے تھے، اور یہی علمائے حق کی پہچان ہے۔


ذَ ٰ⁠لِكَ فَضۡلُ ٱللَّهِ یُؤۡتِیهِ مَن یَشَاۤءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلۡفَضۡلِ ٱلۡعَظِیمِ.

[الجمعة ٤]

یہ اللہ کا خصوصی فضل ہے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل خاص سے سرفراز فرماتا ہے۔


*تقریر وخطابت*

 علمائے کرام کی سب سے اہم ذمہ داری تبلیغ دین اور امت مسلمہ کی ہدایت واصلاح ہے، اس کے لیے سب سے اہم اور موثر ذریعہ تقریر ہے، اسی لیے علمائے کرام اپنی تقاریر کے ذریعے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اور خلق خدا کو فیضیاب کرتے ہیں، طویل عرصے تک مفتی صاحب قبلہ بھی تقریر وخطابت سے وابستہ رہے، اور اپنے علمی خطبات کے ذریعے ایک جہان کو سیراب کرتے رہے، مفتی صاحب نے بے شمار جلسوں کی صدارت کی، اور آپ نے بحیثیت خطیب خصوصی مختلف اجتماعات سے خطاب کیا، عوام کی اصلاح کی، انھیں شریعت وسنت کے مطابق زندگی گزارنے اور مسلک حق پر قائم ودائم رہنے کی تلقین کی، اور جب کبھی فتنوں نے سر اٹھایا تو آپ نے بے خوف وخطر احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا، اس طرح آپ پوری زندگی اسلام و سنیت کی خدمت کے لیے سر گرم عمل رہے۔


 *بیعت وارادت* 

 آپ سرکار سید اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے سچے عاشق تھے، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کے مخلص مرید تھے، اور حضرت تاج الشریعہ کے خلیفہ و مجاز تھے، آپ کو پورے خانوادہ اعلی حضرت سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، مشائخ کا احترام، بزرگوں کی تعظیم، اور خانوادہ رضویہ سے والہانہ محبت آپ کے امتیازی اوصاف تھے، آپ آخر عمر تک اپنے بزرگوں کی ان نوازشات وعنایات  کی بے پناہ قدر کرتے رہے، اسی قدر دانی کا نتیجہ تھا آپ نے اپنے مشائخ کے فیضان کو عام سے عام تر کرنے کے لیے بیعت وارادت  کا سہارا لیا، اور طالبان حق کو سلسلہ قادریہ رضویہ قدیریہ میں بیعت کیا، وجئے واڑہ، ہاسپیٹ اور دیگر مختلف علاقوں میں آپ کے مریدین اور فیض یافتگان بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔


 *انتقال پر ملال*

کورونا کی دوسری لہر کے دوران چند دنوں تک مفتی صاحب کی طبیعت علیل رہی، ضروری علاج ومعالجہ کے بعد حضرت صحت یاب ہوگئے، پھر اچانک طبیعت خراب ہوئی، اور 7 رمضان المبارک 1442 ھجری مطابق 20 اپریل2021 بروز منگل گیارہ بجے دن میں مفتی صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

إنا لله و إنا إليه راجعون، لله ما أعطى ولله ما أخذ، وكل شيء عنده إلى أجل مسمى.


مفتی صاحب کے وصال پر ملال کی خبر سن کر حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے یہ اشعار ذین وفکر میں گردش کرنے لگے۔


 چل دیے تم آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر

رنج فرقت کا ہر اک سینے میں شعلہ چھوڑ کر


لذت مئے لے گیا وہ جام ومینا چھوڑ کر

میرا ساقی چل دیا خود مئے کو تشنہ چھوڑ کر


موت عالِم سے بندھی ہے موت عالَم بے گماں

روح عالم چل دیا عالم کو مردہ چھوڑ کر


خواب میں آکر دکھاؤ ہم کو بھی اے جاں کبھی

کونسی دنیا بسائی تم نے دنیا چھوڑ کر


ہوسکے تو دیکھ کر اختر باغ جنت میں اسے

وہ گیا تاروں سے آگے آشیانہ چھوڑ کر


وصلى الله تعالى على خير خلقه سيدنا و مولانا محمد وآله وصحبه أجمعين، برحمتك يا أرحم الراحمين.

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Recent in Recipes