🌹 *دل میں ہو یاد تری گوشہ تنہائی ہو* 🌹
✍️ *محمد حبیب اللہ بیگ ازہری*
*10 رمضان المبارک 1443، بروز منگل*
مجھے نہیں معلوم کہ میں اس دنیا میں کب آیا، لیکن جب بھی آیا اپنے اختیار سے نہیں آیا، کیوں کہ میں بے کس و مجبور تھا، مجھے کسی شی پر قدرت نہیں تھی، اور مجھے کسی چیز کا علم نہیں تھا، ظاہر سی بات ہے کہ ایسی بے کسی کے عالم میں عدم سے وجود کا حیرت انگیز سفر میرے بس کی بات نہیں تھی، لیکن کسی نے مجھ میں روح پھونک دی، میرے لیے زندگی مقدر کردی، میری روزی، روٹی کا بند وبست کردیا، میری سعادت وشقاوت کا فیصلہ کردیا، پھر اپنے اختیار سے مجھے دنیا میں بھیج دیا، جب دنیا میں نے دنیا میں قدم رکھا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ زندگی کے لیے سانس لینا ضروری ہے، اسی نے مجھے سانس لینا سکھایا، میں نہیں جانتا تھا کہ زندگی کے لیے کھانا پینا ضروری ہے، اسی نے مجھے کھانا، پینا سکھایا، مجھے کسی چیز کا علم نہیں تھا، اسی نے مجھے اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا اور سونا جاگنا سکھایا، اس نے مجھے فہم وفراست عطا کی، اور شعوروآگہی سے نوازا، اس کی نوازشوں کی کوئی حد نہیں، ہر گام پر اس نے میری دستگیری کی، بھوک لگی تو کھانا حاضر کردیا، پیاس لگی تو پانی پلادیا، تنہائی محسوس ہوئی تو اپنی خاص معیت کے ذریعے میری وحشت دور کردی، مصیبت آئی تو بڑی خوش اسلوبی سے ٹال دی، میں نے بہت جلدی محسوس کرلیا کہ اس مادی دنیا میں وہی ہر درد کی دوا ہے، وہی ہر پریشانی کا حل ہے، وہی ہر غم کا مداوا ہے، کیوں کہ میں نے بڑے نشیب وفراز دیکھے، لیکن کبھی اس نے بے یار و مددگار نہیں چھوڑا، بڑے قلق واضطراب سے گزرا، لیکن کبھی اس نے مایوس نہیں کیا، میں نے اس مہربان کو تو کبھی نہیں دیکھا، لیکن ہمیشہ اس کی مہربانیاں دیکھیں، ہر پل اس کی نوازشیں، ہر سحر اس کی عنایتیں، ہر گام اس کی محبتیں۔
سچ پوچھیے تو اس کی محبتوں کا احساس اس وقت دوبالا ہوگیا جب میں ایک طویل بیماری سے شفا یاب ہوا، میں سوچتا تھا کہ زندگی صحت وراحت سے عبارت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے دنیا میں بیماریوں کی کمی نہیں، ایک نہیں جاتی کہ دوسری آجاتی ہے، ایک سے راحت نہیں ملتی کہ دوسری دبوچ لیتی ہے، لیکن یہ بھی عجب معاملہ ہے بیماری، صحت پر غالب آکر منھ چڑاتی ہے، اور وہ مہربان بیماری کی کمر توڑ کر مجھے صحت مند زندگی کی لذتوں سے آشنا کردیتا ہے، بڑا مہربان ہے وہ، واقعی بڑا مہربان ہے، اس کی کس کس مہربانی کا ذکر کروں
*رہ محبت میں ہم نے سوچا*
*کہ سر جھکائیں کہاں سے پہلے*
*ہر ایک ذرہ پکار اٹھا،*
*یہاں سے پہلے یہاں سے پہلے*
میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ زندگی کا یہ خوب صورت سفر خوشی اور غم، صحت ومرض، امیری اور غریبی سے ہوکر ایک دن اختتام کو پہنچتا ہے، زندگی دینے والا موت کی نیند سلادیتا ہے، ماں کی گود میں پروان چڑھانے والا قبر کی گود میں لٹادیتا ہے، آخر یہ کونسی ہستی ہے جسے دیکھا تو نہیں، لیکن ہر جگہ اسی کی حکومت ہے، خشک وتر پر اسی کی حکومت ہے، ظاہر وباطن پر اسی کا غلبہ ہے، قلیل وکثیر پر اسی اختیار ہے، اور سب اس کے ایک اشارے کے پابند اور اسی کے زیر تصرف ہیں، میرے پاس اس با اختیار اور مہربان بادشاہ کے تعارف کے لیے الفاظ نہیں ہیں، اور اس کا بجا تعارف مجھ سے حقیر انسان سے ممکن بھی نہیں، اس کا صحیح تعارف ہوسکتا ہے تو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ان الفاظ میں، کہ:
*فَإِنَّهُمۡ عَدُوࣱّ لِّیۤ إِلَّا رَبَّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ ٱلَّذِی خَلَقَنِی فَهُوَ یَهۡدِینِ وَٱلَّذِی هُوَ یُطۡعِمُنِی وَیَسۡقِینِ وَإِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ یَشۡفِینِ وَٱلَّذِی یُمِیتُنِی ثُمَّ یُحۡیِینِ وَٱلَّذِیۤ أَطۡمَعُ أَن یَغۡفِرَ لِی خَطِیۤـَٔتِی یَوۡمَ ٱلدِّینِ۔*
[سُورَةُ الشُّعَرَاءِ: ٧٧-٨٢]
جن کے سامنے سر جھکانے کے بعد ابدی جہنم ملے وہ میرے دشمن ہیں، میرا دوست تو ںس وہی ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے، جس نے مجھے پیدا کیا اور مجھے ہدایت دیتا ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، جب میں بیمار ہو جاؤں تو وہ مجھے شفا عطا کرتا ہے، اور وہی مجھے موت وحیات سے ہم کنار کرتا ہے، اور اسی سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری لغزشوں کو معاف فرمائے گا۔
*پیش کش*
*انوار القرآن ٹرسٹ، مچھلی پٹنم، اے پی۔*
*الحجاز فاؤنڈیشن، ٹولی چوکی، حیدرآباد*
ایک تبصرہ شائع کریں